امریکہ یا طاقتور ممالک ترقی پذیر  تیسری دنیا یا عرب ممالک پہ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے کون سے شیطانی اور حیوانی کھیل کھیلتے ہیں

کیا امریکہ سپر پاور کی طاقت رکھتا ہے
کیا کسی ملک کا سپر پاور ہونے کا مطلب ظا لم اور قاتل ہونا ہے؟
امریکہ سپر پاور کیسے بنا؟ دنیا پر حکمرانی کے لیے کیسے نظام متعارف کروائے جاتے ہیں؟
مسلمانوں پر زوال اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہے یا ان کی تقدیر میں ایسا لکھا ہوا ہے؟
دوستو کیسے  مزاج ہیں! اپنی اس ریسرچ  میں بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکہ یا طاقتور ممالک ترقی پذیر   تیسری دنیا یا عرب ممالک پہ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے کون سے شیطانی اور حیوانی کھیل کھیلتے ہیں ۔ اس کھیل میں  مشرقی دنیا کے ممالک کے کون سے لوگ اور ادارےان کے لیے  طوالّفوں کا کردار ادا کرتے ہیں یعنی جاسوسی کرتے ہیں یا بغاوت یا غداری کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے اپنے ہی لوگ سہولتکاری کا کردار  ادا کرتے ہیں تو دوسروں سے کیا گلہ کرنا ۔  آج سے تقریبا ایک صدی  قبل  دنیا بھر میں تجارت اور سونے کے کاروبار کی اہمیت ہوتی تھی جبکہ آج کے دور میں ان دونوں کی جگہ تیل نے لے لی ہے۔ آج دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ تیل ہے۔ کیونکہ  ہر چیز کا انحصار اسی پر ہے۔ طاقتور لوگ اور  ممالک اس کی ہوس میں سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں وہ دھوکہ دیتے ہیں چوری کرتے ہیں۔ جہازاور میزائل بناتے ہیں ہزاروں لاکھوں فوجیوں اور عام لوگوں کو جنگوں میں جھونک دیتے ہیں۔

انڈونیشیا میں امریکہ نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے کیا کیا ظلم کیے؟

آج کی اس تحریر میں انڈونیشیا کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہاں کیسے امریکہ نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے کیا کیا ظلم کیے ۔ انڈونیشیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھی دوسری جنگ عظیم 1914 کے بعدماہرین لسانیات نے ایک زبان بھاشا انڈونیشیا ایجاد کی تاکہ جزیروں کو متحد رکھا جائے۔ عالمی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے انڈونیشیا کے لیے بھاری قرضوں کے حصول کے لیے بہت کوشاں تھے اور بے حد خوش بھی۔ اس وقت کی حکومت کو کوئی پرواہ نہ تھی کہ یہ قرضے ملک کو کس حد تک مقروض کر دیں گے ۔ 70 ہزار سے زائد جزیروں پر مشتمل انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا ‘’آر کی پیلا گو’’ ہے جس کا مطلب وہ سمندر جس میں جزیروں کا جھنڈ ہو یعنی جھرمٹ یا گروہ۔ ایسا ملک جہاں 300 سے زیادہ نسل گروہ اور 250 سے زیادہ منفرد زبانیں بولنے والے باشندے آباد ہیں۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے ۔1960 کے آخر تک دنیا جان چکی تھی کہ انڈونیشیا تیل سے مالا مال ہے۔ 1960 کی دہائی میں پوری دنیا کو کمیونسٹ نظام اپنی گرفت میں لے رہا تھا اور امریکہ اس نظام کا سب سےبڑا مخالف تھا۔

امریکہ کی مختلف ممالک میں سازشیں

1963 میں امریکی صدر’’ جان ایف کینڈی ‘’نے سازش کر کے ایشیا کو کمیونسٹ مخالف طاقتوں کا گڑھ بنا دیا تھا ۔ 1963 میں جنوبی ویتنام کے صدر’’ نگوڈین ڈئیم کے خلاف سازش کر کے امریکی صدر جان ایف کنڈی نے حکومت کو ختم کر دیا اور بعدمیں ڈئیم کو قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ قتل سی آئی اے نے کیا تھا جو امریکہ کی ایجنسی ہے کیونکہ اس سے پہلے سی آئی اے نے ایران کے مصدق ،عراق کے قاسم، وینزویلا کے اربنیز اور کانگو کے لوممبا کی حکومت کے تختے الٹ دیے تھے۔ یہ وقت ڈئیم کی معزولی کے بعد جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی جنگی قوتوں کی مضبوطی کا آغاز تھا۔ کینڈی کے قتل کے بعد ویتنام کی جنگ امریکہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ 1969 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے فوجوں کی واپسی کا آغاز کیا اور دوسرے ملکوں کو کمیونسٹ کے وبال سے بچانے کے لیے خفیہ حکمت عملی ترتیب دی اور تب انڈونیشیا اس کا کلیدی کردار تھا۔

انڈونیشیا کا ظالم اور سفاک صدر حاجی سہارتوجو فوج کا سربراہ تھا

انڈونیشیا کے صدر حاجی محمد سہار تو، اس کھیل کے مرکزی کردار تھے انہوں نے اپنے آپ کو ایک مضبوط کمیونسٹ مخالف حکمران کے طور پر تسلیم کروا لیا تھا۔ 1965 میں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اس نے کمیونسٹ قوتوں کی بغاوت کو شدت سے کچل ڈالا تھا جو صدی کے بدترین قتل عام کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تین سے پانچ لاکھ لوگ قتل کیے گئے اس قتل عام نے ہٹلر، اسٹالن ،اور ماؤزے تنگ کی یاد تازہ کر دی۔ تقریبا 10 لاکھ لوگ جیلوں میں قید کیے گئے یوں طاقتور فوج کے سربراہ کے طور پر 1968 میں سہارتو نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1971 میں امریکہ نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ انڈونیشیا بھیجے جن کے ذمہ مختلف کام تھے اور امریکی خارجہ پالیسی کے مقاصد واضح تھے کہ کمیونزم کو روکو اور ظالم صدر کی حمایت کرو اس وقت انڈونیشیا کے سہارتو اور شاہ ایران دونوں لالچی مغرور اور سفاک تھے ۔امریکہ کی پالیسی تھی کہ تیل چوری کرنے کے بعد انڈونیشیا کو باقی ایشیا اور مسلم دنیا کے لیے عبرت بنا دیا جائے۔

عالمی بینک،جھوٹی معاشی رپورٹیں اور امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیاں جرائم میں ملوث ہوتی ہیں

اس وقت امریکہ نے ایک کمپنی بنائی جس کا نام تھا (مین)۔اس کمپنی کو ترقیاتی اور بجلی کا مکمل نظام تیار کرنے کا منصوبہ دیا گیا تھا تاکہ سہارتو صنعتی عمل میں امیر سے امیر ہو جائے اور ملک میں امریکی تسلط کو سہولت کاری دیتا رہے اس کمپنی کے ایک ایجنٹ کا صرف ایک ہی کام تھا کہ ایسی جھوٹی معاشی تحقیقی رپورٹیں جاری کی جائیں۔ جس کی بنیاد پر عالمی بینک ،ایشیائی ترقیاتی بینک اور امریکن ایجنسی سے قرض حاصل کیے جائیں۔ امریکی ایجنٹوں کو خبردار کیا جاتا تھا کہ جب آپ خواتین کے ساتھ تنہا موجود ہوں تو ہمیشہ خفیہ کیمروں اور ٹیپ ریکارڈروں کے لیے تیار رہنا کیونکہ جو نظر آتا ہے وہ ویسا نہیں ہوتا۔
دنیا میں بڑے بڑے کاروباری معاملات طے کرنے میں عورتیں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں امریکہ نے گاؤں کی ترقی کے نمونے کے طور پر انڈونیشیا کے صوبے بورینو، کے دور دراز جزیرے (سولاویسی) کو منتخب کیا تاکہ دکھایا جائے کہ ہم نے کیسے اس گاؤں کو رول ماڈل بنا دیا ہے۔
اس جزیرے پر بہت ساری بڑی بڑی کارپوریشنز اور امریکن کمپنیوں کو اجازت دی گئی ایک امریکن کمپنی نے ہزاروں ایکڑ جنگلات خریدے کاٹے اور بیچ دیے۔ اس منصوبے کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی سرپرستی تھی اس منصوبے کا مقصد تھا کہ کچی آبادی کے رہنے والوں کو غیر آباد علاقوں میں پھیلا دیا جائے تاکہ ان علاقوں میں رکھنے والی تحریکوں کی شدت کم ہو سکے۔ آج بھی امریکہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں ایسے منصوبے بناتا ہے اور اور ان پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ ایسے ہی وہاں کے رہنے والے باشندوں کی زمینوں پر قبضے کیے جاتے ہیں انہیں قتل کیا جاتا ہے اور ترقی کے نام پر بڑی بڑی کمپنیوں کو نوازا جاتا ہے جو ان کی اپنی ہی کارپوریشنز ہوتی ہیں۔ آج بھی زیادہ تر امریکیوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ ان کا امیرانہ طرز زندگی استحصال کے نظام پر قائم ہےمگر دوسرے ملکوں کے لوگ جانتے ہیں کہ یہ امریکی کمپنیاں ہماری فوج کو جمہوریت کا دفاع کرنے کے لیے مدد نہیں دیتی بلکہ بڑی بڑی کمپنیوں کی مصلح محافظ ہوتی ہیں جو ان ممالک کے لوگوں کی بدتر طرز زندگی کی ذمہ دار ہیں۔

آج بھی ترقی پذیر ملکوں کی معاشی حالت کی ذمہ دار امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کی حکومتیں ہیں جن کی بڑی بڑی کمپنیاں دنیا کے معاشی نظام کو اپنی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں۔