اسرائیل کیسے وجود میں آیا :قائداعظم نے کہا کہ فلسطین کے بارے میں ہمارا موقف واضح ہے

اظہر رشید

history of isreal and palestine

اسرائیل کا قیام 14 مئی 1948 کو عمل میں آیا 25 اکتوبر 1947 کو جب کہ ابھی قیام اسرائیل کے منصوبہ کو پیش کیا جا رہا تھا بانی پاکستان قائد اعظم نے رائٹر نیوز ایجنسی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا.

 فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربرا ہ چودھری ظفر اللہ خان نے کر دی ہے ۔مجھے اب بھی یہ امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک  چپقلش کا شروع ہونا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبہ تقسیم نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلہ کے خلاف عملی بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے اسرائیل کے قیام کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ ہی سیاسی اور اخلاقی طور پر ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خواہ مخواہ کے اشتعال اور دست درازوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہے پورےجوش وخروش اور طاقت سے بروے کار لائے ۔

اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے اور یہ دراصل حٖضرت یعقوبؑ کا لقب تھا اس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ

قائد اعظم کے الفاظ کی شدت کی وجہ سمجھنے کے لیے ہمیں اسرائیل کے قیام کے پس منظر کوسمجھنا ہوگا ۔اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے اور یہ دراصل حٖضرت یعقوبؑ کا لقب تھا اس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ حضرت یعقوبؑ کے بارہ  بیٹوں سے جو نسل جاری ہوئی اسے قرآن حکیم میں  میں بنو اسرائیل یا یہود کے نام سے موسو م کیا گیا ہے۔

یہود کا اولین مسکن ارص فلسطین تھا۔ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے حضرت یوسفؑ کو جب مصر میں ایک مقتدر منصب حاصل ہو گیا تو یہود فلسطین سے ہجرت کر کے مصر منتقل ہو گئے تقریبا 400 سال بعد حضرت موسؑی کے زمانے میں یہود مصر سے ہجرت کر کے صحرائے سینا میں آگئے۔صحرائے سینا میں ان پر اللہ تعالی نے من وسلوی  بادلوں کے مسلسل سائے اور ایک چٹان سے پانی کے 12 چشمے جاری کر کے مادی انعامات کیے اور تورات کی صورت میں ہدایت یعنی روحانی نعمت بھی عطا فرمائی اس وقت ارض فلسطین پر ایک مشرک قوم عمالقہ قابض تھی ۔حضرت موسؑی نے یہود کو جہاد کا حکم دیا تاکہ ارص فلسطین کو عمالقہ  سے آزاد کرایا جائے اور وہاں تورات کی تعلیمات پر مبنی عدلانہ نظام قائم کیا جائے

یہود نے جہاد سے انکار کر دیا اور سزا کے طور پر انہیں 40 سال تک صحرا میں بھٹکنے کی سزا دی گئی ۔بعدازاں حضرت یوشعٗ بن نونؑ کی قیادت میں یہود کی صحرا میں پل کر جوان ہونے والی نسل نے جہاد کیا اور فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔یہ قبضہ عارضی ثابت ہوا اور مشرکین نے کچھ عرصے بعد یہود کو فلسطین سے نکال باہر کیا ۔اب یہود نے حضرت طالوت کی قیادت میں منظم ہو کر دوبارہ مشرکین سے جہاد کیا اور 1020 کا ق م  میں پہلی بار فلسطین پر یہود کی مضبوط حکومت قائم ہوگی ۔حضرت طالوت کے بعد حضرت داؤدؑ اور پھر حضرت سلیمانؑ منصب خلافت مامور ہوئے۔

حضرت سلیمانؑ نے بیت المقدس میں ہائیکل سلیمانی تعمیر فرمایا جسے یہود کا قبلہ قرار دے دیا گی

حضرت سلیمانؑ نے بیت المقدس میں ہائیکل سلیمانی تعمیر فرمایا جسے یہود کا قبلہ قرار دے دیا گیا۔ اس سے قبل تمام انبیاء کا قبلہ خانہ کعبہ تھا ۔حضرت سلیمانؑ کے بعد یہود میں اختلافات پیدا ہو گئے اور فلسطینی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگی ۔شمالی ریاست کا نام اسرائیل تھا جنوبی ریاست کا نام یہود ا۔اسرائیل پر 721 قبل مسیح میں ایک مشرک قوم آشوریوں نے قبضہ کر لیا اور یہود ا کو 587 ق مسیح میں بابل کے فرمان رواں بخت نصر نے بتاہ کر دیا بخت نصر نے حضرت سلیمانؑ کی قائم کردہ مسجد ہیکل سلیمانی کو شہید کر دیا۔ یہود کی ایک بڑی تعداد کو قتل کر دیا اور بقیہ کو بابل میں لے جا کر قید کر دیا

یہود کو بابل سے آزاد کرایا

تقریبا 150برس بعد ایران کے بادشاہ کخیورس نے جنہیں قرآن ذوالقرنین کہتا ہے ،یہود کو بابل سے آزاد کرایا۔ یہود دوبارہ ارضِ فلسطین میں آئے اور حضرت عزیرؑ کی قیادت میں دوبارہ منظم ہوئے ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا گیا اس کے بعد یہود یونانیوں کے ساتھ مسلسل سرپیکار رہے اور 175 قبل مسیح میں یہود کو فیصلہ کن کامیابی حاصل ہوئی اور انہوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کی جو تاریخ میں مکابی سلطنت کے نام سے مشہور ہے۔

مزید پڑھیے

حضرت عیؑسی کی آمد پر یہود کی اکثریت نے ان کی نبوت کو تسلیم نہ کیا

حضرت عیؑسی کی آمد پر یہود کی اکثریت نے ان کی نبوت کو تسلیم نہ کیا اور ان کے پیش کردہ معجزات کو جادو قرار دیا جادو کرنا چونکہ شریعت میں کفر ہے ۔لہذا حضرت عیسؑی کو مرتدقرار دے کر قتل مرتد کی سزا کے طور پر سولی دینے کی کوشش کی۔یہود کے اس جرم کو سزا یہ ملی کہ 70 رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا ہیکل سلیمانی کو دوسری بار شہید کر دیا، یہود کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا اور بقیہ کو فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ رومی ریاست نے بعدازاں بحیثیت مجموعی عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔

حضرت عمر فاروق کے زمانے میں جب مسلمانوں نے بیت المقدس  پر حملہ کیا تو عیسائیوں نے پرامن طور پر ایک معاہدے کے نتیجے میں بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کر دیا ۔معاہدے میں عیسائیوں نے طے کرایا کہ یہود بیت المقدس  میں آباد نہ ہو سکیں گے ،البتہ انہیں یہاں آ کر اپنے مقدس  مقامات کی زیارت کی اجازت ہوگی ۔مسلمانوں کے دور حکومت میں اس معاہدے پر عمل جاری رہا آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید خان کو یہود نے اس شرط پر بڑے مالی تعاون کی پیشکش کی کہ وہ یہود کو بیت المقدس  میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں ۔سلطان عبدالحمید نے اس پیشکش کو مستردکر دیا۔

جب بیت المقدس پر برطانیہ کا قبضہ ہوا تو 1917 میں اعلان کے ذریعہ یہود نے بیت المقدس آباد ہونے کی اجازت حاصل کر لی

isreal palestine

جب بیت المقدس   پر برطانیہ کا قبضہ ہوا تو 1917 میں اعلان  کے ذریعہ  یہود نے بیت المقدس  آباد ہونے کی اجازت حاصل کر لی ۔یہود نے فلسطینیوں سے منہ مانگے داموں جائیدادیں خریدی اور جنہوں نے اپنی جائیدادیں فروخت کرنے سے انکار کیا انہیں برطانوی حکومت کے زیر سرپرستی زبردستی بے دخل کر دیا گیا۔ دستاویزات کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ فلاں جائیداد دو ہزار سال قبل ہمارے فلاں بزرگ کے نام تھی جس پر آج کوئی فلسطینی قابض ہے برطانوی حکومت نے اس طرح کے دعوے قبول کیے اور یوں یہود فلسطین میں آباد ہوتے چلے گئے یہ دھاندلی مسلسل جاری رہی یہود کو باہر سے لا کر فلسطین میں آباد  کیا جا رہا  جب کہ انہیں 1800 برس قبل یہاں سے نکال دیا گیا تھا اور بالآخر برطانیہ اور امریکہ کی ملی بھگت سے 1948 میں ایک یہودی ریاست اسرائیل کے نام سے قائم کر دی گئی

یہودیوں کو جب برطانیہ کے زیر سرپرستی فلسطین میں ناجائز طور پر آباد کیا جا رہا تھا تو اس پر اقبال نے کہا تھا۔

 ہے  ارض فلسطین  پہ یہودی کا اگر حق

 اسپین پر کیوں حق نہیں پھر اہل عرب کا

کیا اسرائیل بائیل کی پیشگوئیوں کی تکمیل ہے

یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کوئی پکا مذہبی یہودی یہ نہیں مانتا کہ موجودہ اسرائیلی ریاست اس طرح عمل سے وجود میں ائی ہے جو بائیل کے احکامات سے ذرہ  بھر بھی مطابقت رکھتا ہو

 بلا شعبہ حق عادل اور انصاف کا کوئی اصول اسرائیل کے قیام کی پشت پر نہیں ہے

دیگر عنوانات

نوٹ

اگرتحریر میں کوئی غلطی نظر آئے تو اُس کے لیے معزرت خواہ ہٰیں
حقائق و واقعات کی درست نشاندہ کرنے کے لیے آپ تبصرے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں
ہم کوشش کریں گے آپ کی رائے کا احترام کیا جائے

Comment box
Name
Name
First Name
Last Name

ٹائم شِپ کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اسی بارے میں