خوراک میں چیونٹیوں کی ابادی کی ایک اہم خصوصیت ہے جب دو چیونٹیاں اپس میں ملتی ہیں اور ان میں سے ایک بھوکی یا پیاسی ہو تو دوسری سے خوراک مانگتی ہے دوسری چیونٹی اس کی درخواست کو رد نہیں کرتی اور خوراک دے دیتی ہے مزدور چیونٹیاں لارووں کو یعنی چھوٹے بچوں کو اپنے منہ میں موجود خوراک کھلاتی ہیں

چیونٹوں کی ابادی میں کام تقسیم ہوتے ہیں ہر چیونٹی اپنا فرض نہایت محنت سے ادا کرتی ہے ایک چیونٹی ابادی کے دہانے پر چوکیدار کا کردار ادا کرتی ہے اور صرف یہاں کے باشندوں کو اندر انے کی اجازت دیتی ہے اس چوکیدار چیونٹی کا سر ابادی کے دروازے کے برابر ہوتا ہے اور وہ اپنے سر سے راستہ بند کر دیتی ہے پہرے دار چونٹیوں کو باہر سے انے والے خطرے کا پہلے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

چیونٹیاں صرف اپنے معدے میں موجود خوراک ہی دوسری چیونٹیوں کو نہیں کھلاتی بلکہ دوسری جگہ خوراک ڈھونڈنے میں ان کی رہنمائی بھی کرتی ہیں اس رویے میں کسی بھی جگہ خود غرضی نہیں ہے خوراک حاصل کرنے والی پہلی چیونٹی اپنا پیٹ بھرنے کے بعد واپس ابادی کی جانب اتی ہے اور راستے میں اپنے پیٹ کو زمین پر رگڑ کر ایک کیمیائی مادہ خرچ کرتی رہتی ہے پھر ابادی کے گرد چکر لگاتی ہے یہ چکر دیگر ابادی کو خبر دینے کے لیے ہوتے ہیں ۔یوں اس چیونٹی کے پیچھے ایک طویل قطار ہوتی ہے اپ نے جب بھی دیکھا ہوگا چیونٹیوں کو قطار میں ہی دیکھا ہوگا یہی ان کی صفت ہے ۔

چیونٹیوں کی ایک قسم برگ تراش کہلاتی ہے اس قسم میں مزدور چیونٹیاں سارا دن پتوں کے ٹکڑے ابادی کی جانب جمع کرتی رہتی ہیں اس کام کے دوران وہ دشمن مکھیوں سے اپنے دفاع سے بے خبر رہتی ہیں جو اپنا انڈا ان چیونٹیوں کے سر پر رکھ دیتی ہیں اور ان کا لاروا ان چیونٹیوں کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے چنانچہ اس دوران اس ابادی کی بڑی چیونٹیاں ان پتوں کے اوپر کسی بھی خطرے سے دفاع کے لیے تیار رہتی ہیں ۔

چیونٹیوں کی ایک قسم شہد کی چیونٹی ہے اس کے نام کا سبب یہ ہے کہ یہ چیونٹیاں ایسے کیڑے مکوڑوں کے فضلوں پر پرورش پاتی ہیں جو پتوں کا رس چوستے ہیں یہ فضلہ شکر سے بھرپور ہوتا ہے یہ اس فضلے کو چوس کر اپنی ابادی میں پہنچاتی ہیں اور ذخیرہ کرتی ہیں بعض مزدور چیونٹیاں اپنے پیٹ کو گودام کے طور پر استعمال کرتی ہیں چنانچہ دوسری چیونٹیاں یہ مواد لا کر ان کے منہ میں ڈالتی رہتی ہیں اس طرح ان چیونٹیوں کے پیٹ کا نچلا حصہ رس سے بھر جاتا ہے اور پیٹ پھول جاتا ہے ہر خانے میں 25 سے 30 ایسی چیونٹیاں ہوتی ہیں جو ٹانگوں کی مدد سے چھت سے لٹکی رہتی ہیں اگر کوئی نیچے گر جائے تو دوسری اسے دوبارہ لٹکا دیتی ہے ان چیونٹیوں کے پیٹ میں موجود رس کا وزن ان کے اپنے وزن سے اٹھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔خشکی سردی کے موسم میں دوسری چیونٹیاں روزانہ خوراک کے لیے ان زندہ گوداموں کے پاس اتی ہیں چنانچہ ایک چیونٹی پیٹ دبا کر دوسرے کے لیے ایک قطرہ نکالتی ہے یہ جذبہ قربانی کا انوکھا انداز ہے حالانکہ ذخیرہ کرنے والی چونٹی کو سارے عمل میں کوئی خودغرضی نہیں ہے یوں یہ کام نسل در نسل جاری رہتا ہے یہ اللہ کی قدرت ہے۔

چیونٹیوں میں اپنی ابادی کے دفاع کا ایک طریقہ خودکش حملوں کے ذریعے دشمن کو نقصان پہنچانا ہے اس حملے کی کئی شکلیں ہوتی ہیں مثلا ملائشیا کے بارانی جنگلوں میں پائی جانے والی چونٹی کے جسم پر سر سے دم تک ایک زہر الود غدود ہوتا ہے جب دشمن اسے گھیر لے تو دشمن کے سامنے زہریلا دھماکہ کرتی ہے جس کے نتیجے دشمن مر جاتا ہے۔

نسل میں اضافے کے لیے نر اور مادہ چونٹی بہت زیادہ قربانی دیتے ہیں چنانچہ پروں والی نرچیونٹی بہت جلد مر جاتی ہے اور اس کے بعد مادہ چیونٹی بل بنانے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں نکل جاتی ہے اور بل یعنی گھر کا منہ بند کر کے بغیر کھائے پیے کی ہفتے بلکہ کئی مہینے گزار دیتی ہے اسی دوران نئی ابادی میں ملکہ کی حیثیت سے انڈے دیتی ہے اس عرصے میں اس کی خوراک خود اس کے اپنے پر ہوتے ہیں اور پھر پہلے بچوں کو بھی اپنے جسم سے نکلنے والے مادے سے غذا فراہم کرتی ہے۔

اگر ابادی پر دشمن اچانک حملہ کر دے تو مزدور چیونٹیاں بچوں کو بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتی ہیں ۔لڑاکا چیونٹیاں دشمن کا مقابلہ کرتی ہیں جبکہ مزدور چیونٹیاں بل کے اندرونی خانوں سے لارووں کو اپنے منہ میں پکڑ کر جنگ کے خاتمے تک اپنی ابادی سے باہر ایک خاص مقام پر منتقل ہو جاتی ہیں مشکل حالات میں اپ توقع کر سکتے ہیں کہ چونٹیاں دشمن سے بچنے کے لیے چھپ سکتی ہیں لیکن اپنی ابادی کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہوتی ہیں چیونٹیوں میں کروڑوں سال سے یہی رویہ چلا ا رہا ہے۔

ant lifestyle

جانداروں کی دنیا میں یہ چیزیں حیران کن سمجھی جاتی ہیں جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ طور طریقے اور رہن سہن چیونٹی جیسی حقیر چھوٹے جاندار میں پائے جاتے ہیں جس کے بارے میں ہم اپنی روزمرہ زندگی میں غور و فکر نہیں کرتے اگر ہم ان کاموں پر غور کریں تو اس کے پیچھے ایک زبردست عقل حکمت ہے اور وہ ہے اللہ کا حکم کیونکہ چیونٹی اپنے خالق خالق کے حکم کی پابند ہیں جس نے انہیں وجود بخشا اللہ نے ان کے اندر ایسا زبردست سسٹم نافذ کر دیا ہے جس کی بدولت وہ اپنی زندگی گزارتی ہیں ۔

چیونٹیوں کی ابادی کا ہر فرد ابادی اور کمزور لارووں کی دیکھ بھال کرتا ہے یہی بات ہم انسانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن انسان نہیں سمجھتا ۔