history of portugal. vasco da gama
آٹھ جولائی 1497 ہفتے کا دن جس کا انتخاب پرتگال کے شاہی نجومیوں نے بڑی احتیاط سے کیا ہے پرتگال کے دارالحکومت لزبن کی گلیوں میں جشن کا اہتمام تھا لوگ جلوسوں کی شکل میں ساحل کا رخ کر رہے تھے جہاں چار جہاز ایک لمبے سفر کا اغاز کرنے کے لیے تیار تھے اس وقت پرتگال کا بادشاہ دوم مینوئل اس مہم میں ذاتی دلچسپی رکھتا تھا اس نے خزانے کے منہ کھول دیے تھے

واسکودےگاما جو ایک بحری سیاح تھا

vasco da gama
واسکودےگاما جو ایک بحری سیاح تھا اس کی قیادت میں چاروں جہاز طویل سفر کے لیے درکار جدید ترین آلات اور زمینی و آسمانی نقشوں سے لیس تھے ساتھ ہی اس دور کی جدید توپیں نصب تھی یہ جہاز اپنے سفر پرروانہ ہوا دس ماہ اور 12 دن بعد یہ بحری بیڑا جنوبی ہندوستان کے ساحل پر اترا تو اس کی بدولت یورپ کی بحری تنہائی ختم ہو گئی یوں پہلی باربحیر او قیانوس اور بحر ہند آپس میں ایک شاہرہ بن گئے دوسری طرف کسی یورپی ممالک کی جانب سے ایشیا وا افریقہ میں پہلی بار نو آبادیات قائم کرنے کا موقع پیدا ہوا یہ پرتگال کے ہندوستان تک پہنچنے کی پہلی کوشش نہیں تھی مغربی یورپ کا چھوٹا سا ملک افریقہ کے مغربی ساحل کی نقشہ بندی کر رہا تھا اس دوران سینکڑوں ملاحوں کی قربانی بھی دے چکا تھا

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرتگال کو ہندوستان میں دلچسپی کیوں تھی

عثمانی سلطان محمد فتح نے  قسطنطتنہ پر قبضہ کر کے یورپ کی بنیاد ہلا دی تھی اب مشرق سے تمام تاتجارت عثمانیوں یا  پھر مصریوں کے ذریعے ممکن تھی جو ہندوستان اور ایشیا کے دیگر ممالک سے انے والی مصنوعات پر بھاری ٹیکس وصول کرتے تھے دوسری طرف یورپ کے اندر وینس اور جنیوا نے ایشیا کے ساتھ زمینی راستوں سے ہونے والی تجارت پر اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔
جس سے دوسری یورپی ممالک خاص طور پر اسپین اور پرتگال کو کوئی فائدہ نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ واسکودے گاما کے سفر سے پانچ سال قبل سپین نے کرسٹوفر کولمبس کی قیادت میں مغربی راستے سے ہندوستان تک پہنچنے کے لیے ایک مہم روانہ کی تھی لیکن پرتگالیوں کو معلوم تھا کہ کولمبس کی خام منصوبہ بندی اور ناقص معلومات کی بدولت وہ ہندوستان نہیں پہنچ سکتا واقعی کولمبس مرتے دم تک سمجھتا رہا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے۔ حالانکہ وہ حادثاتی طور پر ایک نیا براعظم دریافت کر بیٹھا۔ راستے میں بے پناہ مشکلات کے بعد واسکو دے گامایورپی تاریخ میں پہلی بار افریقہ کے جنوبی ساحل کو عبور کرنے میں کامیاب ہوا تاہم ہندوستان ابھی بھی ہزاروں میل دور تھا خوش قسمتی سے اسے کینیا کے شہر مالیندی سے ایک گجراتی مسلمان مل گیا جو بحر ہند سے واقف تھا یوں واسکو دے گاما کو کافی معلومات حاصل ہوئی۔ اس واقعے کی پانچ صدیوں بعد بھی عرب کشتی ران اس ملا کی نسلوں کو کوستے رہے جس نے پرتگالیوں پر بحر ہند کے اسرار کھول دیے اور یوں قائم ہزاروں سال پرانا تجارتی نظام درہم بھرم کر دیا۔ اس گجراتی مسلمان کی رہنمائی میں 20 مئی 1998 کو ہزاروں میل کے سفر اور عملے کے درجنوں افراد گنوانے کے بعد واسکو دے گاما ہندوستان میں کالی کٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ کالی کٹ میں قیام کے دوران واسکو دے گاما ہندوستان کو کوئی گمراہ عیسائی فرقہ سمجھتارہا۔ پرتگالی ملاح مندروں میں جا کر ہندو دیوتاؤں کے مجسموں کو بی بی مریم کے مجسمے اور دیوتاؤں کو عیسائی اولیاء سمجھ کر ان کے سامنے جھکتے رہے کالی کٹ کے سمندری راجہ نے اپنے محل میں واسکودے گاما کا استقبال کیا۔ بارش میں واسکو کو چھتری لگی پالکی میں بٹھا کر بندرگاہ سے دریا تک لایا گیا۔ لیکن یہ خوشگواری اس وقت تلخی میں بدل گئی جب واسکو نے راجہ کو تحائف دیے وہ معمولی نکلے کہ وزیر نے راجہ کو دکھانے سے انکار کر دیا۔ ان تحائف میں سرخ رنگ کے ہیٹ،پیتل کے برتن، چندسیر چینی اور شہد تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا مقامی حکام واسکو دے گاما کو کسی شاہی سفیر کی بجائے سمندری ڈاکو سمجھ سمجھنے لگے۔
سمندری راجہ نے واسکو کی جانب سے تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے اور پرتگالی تاجروں کا ٹیکس معاف کرنے کی درخواست رد کر دی یوں مقامی لوگوں نے کئی پرتگالیوں کو ہلاک کر دیا۔ واسکو دے گاما کے جہازوں میں جو توپ نصب تھی ان سے بمباری اس قدر شدید تھی کہ کالی کٹ کی کئی عمارتیں بشمول محل تباہ کر دیے اور سمندری راجہ کو اندرون ملک فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ سفارتی ناکامی اپنی جگہ لیکن کالی کٹ میں تین ماہ قیام کے دوران یہاں کی منڈیوں سے واسکو کو قیمتی گرم مصالحہ ملا جس کے جہاز بھر دیے گئے۔

واسکو کا سفر واپسی بے حد مشکل ثابت ہوا

واسکو کا سفر واپسی بے حد مشکل ثابت ہوانصف عملہ بیماری اور ایک جہاز طوفان کا شکار ہو گیا۔بالآخر لزبن سے روانگی کے ٹھیک دو سال بعد 10 جولائی 1499کو 25 ہزار کلومیٹر سفر طے کرنےکے بعد جب پرتگالی بیڑا واپس لزبن پہنچا تو ان کا شاندار استقبال کیا گی۔ااس وقت 170 افراد جس سے صرف 54 زندہ لوٹ پائےجب کے واسکودے گاما اپنے بھائی کی بیماری کے باعث راستے میں ایک جزیرے پر رک گیا۔واسکودے گاما نے کالی کٹ میں مسلمانوں کے کم از کم 1500 جہاز گنے تھے ۔یہ جہاز اکثر غیر مصلح ہوا کرتے تھے بحر ہند میں ہونے والی تجارت باہمی اصولوں پر قائم تھی جبکہ پرتگالی ان اصولوں پر کام نہیں کرنا چاہتے تھےبلکہ وہ طاقت کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے تھے ۔یوں طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کے لیے واسکو گاما کی امد کے چھ ماہ کے اندر اندر جب کبرال کی قیادت میں دوسرا پرتگالی بیڑا ہندوستان کی طرف روانہ ہوا تو اس میں 13 جہاز شامل تھے۔ اس کی تیاری تجارتی مہم سے زیادہ جنگی کاروائی کی تھی۔

کبرال کو پرتگالی بادشاہ نے جو تحریری ہدایت نامہ دیا وہ یوں تھا

تمہیں سمندر میں مکہ کے مسلمانوں کا جو بھی جہاز ملے اسے قبضے میں کر لو اور اس پر لدے مال تجارت اور سامان اور لوگوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرو۔ ان سے جنگ کرو اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرو۔یوں پرتگالیوں نے کالی کٹ پہنچ کر جہازوں پر سمان اپنے قبضے میں لیا اور جہازوں کو مسافروں سمیت اگ لگا دی۔کبرال نے دو دن بمباری کر کے لوگوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ “ اس وجہ سے جب کبرال” کو چین اور”کنور “کی بندرگاہوں پر اترا تو وہاں کے راجاؤں نے پرتگالیوں کو تجارتی مراکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔کبرال کے مصالحہ جات سے لدے جہاز جب واپس پرتگال پہنچے تو لزبن میں خوشیاں منائی گئی۔ اس سے زیادہ ماتم وینس میں دیکھنے میں ایا کیونکہ یہ وینس کے لیے بری خبر تھی۔ جب 1502 میں وینس کے جہاز اسکندریہ کی بندرگاہ پہنچے تو معلوم ہوا وہاں مصالحہ جات نہ ہونے کے برابر اور قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔

واسکو دے گاما کی ہندوستان واپسی

اگلی بار واسکو دے گاما نے ہندوستانا کا سفر کیا تو اس نے افریقہ کے مشرقی ساحلی شہریوں کو بلاوجہ بمباری کا نشانہ بنایا۔ سفر کے دوران جو جہاز راستے میں ایا وہ لوٹ کر ڈبو دیا گیا ہے اسی دوران حاجیوں کا ایک دوسرا میری نامی جہاز اس کے ہاتھ لگ گیا جس پر 400 مسافر تھے۔ جو کالی کٹ سے مکہ جا رہے تھے واسکو نے مسافروں کو باندھ کر جہاز کو آگ لگا دی۔جہاز میں عورتیں اپنے بچوں کو اٹھا کر رحم کی بھیک مانگتی رہیں اور واسکو اپنے جہاز سے تماشہ دیکھتا رہا۔مالا بار کے ساحلوں پر آج بھی میری کی تباہی کے نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کا واضح مقصد پورے خطے میں پرتگالی دہشت پھیلانا تھا۔ مقامی راجاؤں نے بھرپور مزاحمت کی کوشش کی لیکن فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ یوں آنے والی ڈیڑھ صدیوں میں پرتگالیوں نے” کنور “کوچین گوا ،مدارس اور کالی کٹ کے علاوہ کئی دوسرے ساحلی علاقوں میں سمندر پار حکومت قائم کر لی۔ اور وہاں اپنے وائسرائےاور گورنر مقرر کر دیے۔دوسرے یورپی ممالک یہ عمل دیکھ رہے تھے بعد میں انہوں نے یہی عمل دہراتے ہوئے پرتگالیوں کو انھی کے کھیل میں شکست دے کر پورے بحر ہند اور ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔

انڈیا نے کب پرتگالیوں سے آزادی حاصل کی

صرف گوا،دمن اور دیو کے علاقے برصغیر کی آزادی تک پرتگالیوں کے پاس رہے۔ آخر دسمبر 1961 میں انڈیا نے اپنی فوجیں بھیج کر یہ تینوں علاقے واپس چھین لیے۔ ڈیڑھ صدیوں تک پرتگالی ہندوستان سے گرم مصالحہ، ادرک، الائچی، لونگ، کپڑا، دار چینی ،چین سے ریشم اور برتن یورپ لے جاتے۔ وہاں سے شراب، اون اور سونا یہاں فروخت کرنے لگے۔ اسی دوران براعظم امریکہ دریافت ہو چکا تھا اور وہاں سپین کے علاوہ خود پرتگال اور دوسرے یورپی ملکوں نے نو آبادیاں قائم کرنا شروع کر دی۔

ہندوستان کے لوگ سرخ مرچ سے کب واقف ہوئے

پرتگالیوں نے اس نئی دنیا یعنی امریکہ سے مکئ، آلو، تمباکو، ٹماٹر، انناس ،کاجو اور سرخ مرچ لا کر ہندوستان میں متعارف کروائیں۔ پرتگالیوں سے پہلے یہاں لوگ سرخ مرچ سے واقف نہ تھے۔

انگریزوں کو بھی پرتگالی سیکھناپڑتی تھی۔

پرتگالی زبان کئی صدیوں تک بحر ہند کی بندرگاہوں کی مشترکہ زبان رہی اور یہاں کے لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے انگریزوں کو بھی پرتگالی سیکھناپڑتی تھی۔ حتی کہ سراج الدولہ کو شکست دینے والا لارڈ کلائیو بھی مقامی ہندوستانیوں کے ساتھ پرتگالی میں بات چیت کرتا تھا۔ برصغیر کی 50 سے زیادہ زائد زبانوں میں پرتگالی کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ایسے ہی کچھ پرتگالی الفاظ یہ ہیں چابی ،پادری ،گرجا، انگریز، انگریزی، گودام، استری، کاج، پرات،بھتہ ، پگار یعنی تنخواہ، تمباکواور مار توڑ وغیرہ۔ مغلوں کو سمندر سے دلچسپی نہیں تھی۔ 1526 میں بابر نے جب ہندوستان میں مغل سلطنت کی داغ بیل ڈالی تو اس وقت پر تگالی تمام ساحلی علاقوں پر قدم جما چکے تھے۔ تاہم مغل خشکی سے آئے ہوئے تھے اسی لیے انہوں نے سمندری معاملات کو اہمیت نہ دی۔پرتگالیوں نے مغلوں سے تعلقات قائم کرلیے اور تحائف بھیجتے رہے۔ خاص طور پر یورپی پینٹیگز نے مغلوں کو متاثر کیا،

ہندوستان میں موسیقی کا سنہرا پرتگالی دور

ہم سب بالی وڈ کے سنہرے دور کی موسیقی کے مداح ہیں۔ اس موسیقی میں گوا سے آنے والے پرتگالی نثراد موسیقاروں کا بڑا حصہ ہے جنہوں نے ہندوستانی میوزک ڈائریکٹرز کو میوزک کا استعمال سکھایا۔ آج بھی اگر آپ”شنکر جے کشن” ایس ڈی برمن, سی رام چندر، اوپی نیئر، اور لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقاروں کی فلمیں دیکھیں۔ تو میوزک کے ٹائٹل تلے آپ گانسا لوس، فرنانڈو،ڈی سوزا، ڈی سلوا جیسے کئی نام نظر آئیں گے جو ایک گزرے ہوئے عہد کی داستان سناتے ہیں۔