واسکودےگاما جو ایک بحری سیاح تھا
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرتگال کو ہندوستان میں دلچسپی کیوں تھی
عثمانی سلطان محمد فتح نے قسطنطتنہ پر قبضہ کر کے یورپ کی بنیاد ہلا دی تھی اب مشرق سے تمام تاتجارت عثمانیوں یا پھر مصریوں کے ذریعے ممکن تھی جو ہندوستان اور ایشیا کے دیگر ممالک سے انے والی مصنوعات پر بھاری ٹیکس وصول کرتے تھے دوسری طرف یورپ کے اندر وینس اور جنیوا نے ایشیا کے ساتھ زمینی راستوں سے ہونے والی تجارت پر اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔
جس سے دوسری یورپی ممالک خاص طور پر اسپین اور پرتگال کو کوئی فائدہ نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ واسکودے گاما کے سفر سے پانچ سال قبل سپین نے کرسٹوفر کولمبس کی قیادت میں مغربی راستے سے ہندوستان تک پہنچنے کے لیے ایک مہم روانہ کی تھی لیکن پرتگالیوں کو معلوم تھا کہ کولمبس کی خام منصوبہ بندی اور ناقص معلومات کی بدولت وہ ہندوستان نہیں پہنچ سکتا واقعی کولمبس مرتے دم تک سمجھتا رہا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے۔ حالانکہ وہ حادثاتی طور پر ایک نیا براعظم دریافت کر بیٹھا۔ راستے میں بے پناہ مشکلات کے بعد واسکو دے گامایورپی تاریخ میں پہلی بار افریقہ کے جنوبی ساحل کو عبور کرنے میں کامیاب ہوا تاہم ہندوستان ابھی بھی ہزاروں میل دور تھا خوش قسمتی سے اسے کینیا کے شہر مالیندی سے ایک گجراتی مسلمان مل گیا جو بحر ہند سے واقف تھا یوں واسکو دے گاما کو کافی معلومات حاصل ہوئی۔ اس واقعے کی پانچ صدیوں بعد بھی عرب کشتی ران اس ملا کی نسلوں کو کوستے رہے جس نے پرتگالیوں پر بحر ہند کے اسرار کھول دیے اور یوں قائم ہزاروں سال پرانا تجارتی نظام درہم بھرم کر دیا۔ اس گجراتی مسلمان کی رہنمائی میں 20 مئی 1998 کو ہزاروں میل کے سفر اور عملے کے درجنوں افراد گنوانے کے بعد واسکو دے گاما ہندوستان میں کالی کٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ کالی کٹ میں قیام کے دوران واسکو دے گاما ہندوستان کو کوئی گمراہ عیسائی فرقہ سمجھتارہا۔ پرتگالی ملاح مندروں میں جا کر ہندو دیوتاؤں کے مجسموں کو بی بی مریم کے مجسمے اور دیوتاؤں کو عیسائی اولیاء سمجھ کر ان کے سامنے جھکتے رہے کالی کٹ کے سمندری راجہ نے اپنے محل میں واسکودے گاما کا استقبال کیا۔ بارش میں واسکو کو چھتری لگی پالکی میں بٹھا کر بندرگاہ سے دریا تک لایا گیا۔ لیکن یہ خوشگواری اس وقت تلخی میں بدل گئی جب واسکو نے راجہ کو تحائف دیے وہ معمولی نکلے کہ وزیر نے راجہ کو دکھانے سے انکار کر دیا۔ ان تحائف میں سرخ رنگ کے ہیٹ،پیتل کے برتن، چندسیر چینی اور شہد تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا مقامی حکام واسکو دے گاما کو کسی شاہی سفیر کی بجائے سمندری ڈاکو سمجھ سمجھنے لگے۔
سمندری راجہ نے واسکو کی جانب سے تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے اور پرتگالی تاجروں کا ٹیکس معاف کرنے کی درخواست رد کر دی یوں مقامی لوگوں نے کئی پرتگالیوں کو ہلاک کر دیا۔ واسکو دے گاما کے جہازوں میں جو توپ نصب تھی ان سے بمباری اس قدر شدید تھی کہ کالی کٹ کی کئی عمارتیں بشمول محل تباہ کر دیے اور سمندری راجہ کو اندرون ملک فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ سفارتی ناکامی اپنی جگہ لیکن کالی کٹ میں تین ماہ قیام کے دوران یہاں کی منڈیوں سے واسکو کو قیمتی گرم مصالحہ ملا جس کے جہاز بھر دیے گئے۔
واسکو کا سفر واپسی بے حد مشکل ثابت ہوا
واسکو کا سفر واپسی بے حد مشکل ثابت ہوانصف عملہ بیماری اور ایک جہاز طوفان کا شکار ہو گیا۔بالآخر لزبن سے روانگی کے ٹھیک دو سال بعد 10 جولائی 1499کو 25 ہزار کلومیٹر سفر طے کرنےکے بعد جب پرتگالی بیڑا واپس لزبن پہنچا تو ان کا شاندار استقبال کیا گی۔ااس وقت 170 افراد جس سے صرف 54 زندہ لوٹ پائےجب کے واسکودے گاما اپنے بھائی کی بیماری کے باعث راستے میں ایک جزیرے پر رک گیا۔واسکودے گاما نے کالی کٹ میں مسلمانوں کے کم از کم 1500 جہاز گنے تھے ۔یہ جہاز اکثر غیر مصلح ہوا کرتے تھے بحر ہند میں ہونے والی تجارت باہمی اصولوں پر قائم تھی جبکہ پرتگالی ان اصولوں پر کام نہیں کرنا چاہتے تھےبلکہ وہ طاقت کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے تھے ۔یوں طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کے لیے واسکو گاما کی امد کے چھ ماہ کے اندر اندر جب کبرال کی قیادت میں دوسرا پرتگالی بیڑا ہندوستان کی طرف روانہ ہوا تو اس میں 13 جہاز شامل تھے۔ اس کی تیاری تجارتی مہم سے زیادہ جنگی کاروائی کی تھی۔