انگریزوں سے برصغیر کی آزادی کے بعد بھی گوا، دمن اور دیو کے ساحلی علاقے پرتگالیوں کے پاس رہے ۔آخر دسمبر 1961 میں انڈیا نے اپنی فوجیں بھیج کر علاقے واپس لیے۔ مغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ وہ زبردستی گوا کو انڈیا کے ساتھ ختم نہیں کریں گے۔ لیکن کرشنا مینن انڈیا کے اس وقت کے وزیر دفاع نہروکو سمجھانے میں کامیاب رہے کہ گوا کو پرتگالیوں سے آزاد کروانا چاہیے۔ جب پرتگالیوں کو گوا سے باہر نکالنے کی تمام کوششیں پرامن طریقے سے ناکام ہوئی تو نہرو نے فوج بھیج کر گوا کو آزاد کروانے کے منصوبے کی ہری جھنڈی
دکھا دی ۔
انڈین فوجوں کی نقل و حرکت 2 دسمبر 1961 کو شروع ہوئی فوجیوں کو آگرہ، حیدرآباد،اور مدارس سے بیلگاؤں لایا گیا۔ ادھر پرتگال نے بھی انڈین کاروائی سے نمٹنے کی تیاریاں شروع کر دی۔ اس نے اپنے ایک بحری جہاز “انڈیا” کو گوا بھیجا۔ تاکہ “باکو نیشنل آلٹر مارینو” میں پرتگالی شہریوں کا سونا اور بیویوں، بچوں کو لزبن بھیجا جا سکے۔ 9 دسمبر 1961 کو پرتگالی جہاز لزبن سے “مورمو گاؤں” بھیجا۔ جہاز نے 12 دسمبر کو لزبن واپسی کا سفر شروع کیا۔ جہاز میں 380 افراد کی گنجائش تھی اور 700 لوگ سوار ہوئے۔
دسمبر 1961 میں انڈیا میں امریکی سفیر نے کئ بار انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو سے ملاقات کی کہ گوا میں فوجی کاروائی کا فیصلہ روکا جائےتاہم فوجی کاروائی کا پہلے سے طے شدہ دن 14 دسمبر تھاجو بعد میں 16 کر دیا گیا۔
پرتگالی امریکہ کی آخری ڈپلومیسی کے کامیاب ہونے کے بارے میں کافی پر اعتماد تھے۔ 17 دسمبر کو امریکی سفیر نے نہرو سے کہا کہ انڈیا گوا کے خلاف فوجی کاروائی 6 ماہ کے لیے ملتوی کر دیں لیکن نہرو ایسا نہ کر سکا۔ اور انڈین فوجیں گوا میں داخل ہو گیئں۔ فوجوں نے 17 اور 18 دسمبر کی درمیانی رات گوا کی سرحد عبور کی
۔گوا میں داخل ہون
کے لیے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا
انڈین طیاروں نے پورے گوا میں کتابچے گرائے جس میں لوگوں کو پرسکون رہنے کا کہا گیا۔ 18 دسمبر کی شام تک دارالحکومت پنجی کو گھیر لیا گیا۔ مقامی لوگ انڈین فوجیوں کی مدد کر رہے تھے اور انہیں ان جگہوں کے بارے میں بتا رہے تھے جہاں پرتگالیوں نے بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھی۔ آپریشن کے آغاز کے 36 گھنٹوں کے اندر پرتگالی گورنر جنرل نے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر دئے تھے۔ جون 1962 تک انڈین فوجی گوا میں اپنا آپریشن مکمل کر کے آگرہ واپس آ چکے تھے۔18دسمبر کی صبح 7 بجے انڈین طیاروں نے گوا میں بمبولم کے ریڈیو سٹیشن پر راکٹوں اور توپوں سے حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔ گوا کا بیرونی دنیا سے رابطہ کٹ گیا۔
گوا ریڈیو کا وہ مشہور اعلان “ یہ پرتگال ہے، آپ گوا سن رہے ہیں” ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا
گوا میں موجود پرتگالی افسران نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو ہوائی جہاز کے ذریعے پرتگال بھیجیں گئے۔ اس وقت ڈیبولیم میں صرف دو طیارے دستیاب تھے ان میں بچوں اور عورتوں کو بھرا گیا اور رات کے وقت بہت نیچی پرواز کرتے ہوئے پاکستان کے کراچی ائیرپورٹ پر اترے۔ گوا کے پرتگالی گورنر جنرل، میجر جنرل سلوا کو انڈین فوج نے گھیر لیا اور ان کے پاس مزاحمت کا کوئی آپشن نہیں تھا۔ انڈین آفیسر نے میجر جنرل سلوا کو کہا! کہ اپنے فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا کہیں۔ ہتھیار ڈالنے کی تقریب 19 دسمبر 1961 رات 9:15 پر ہوئی۔ جنرل سلوا کی اہلیہ فرنینڈا سلوا کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ انہیں سرکاری رہائی گاہ سے زبردستی نکال دیا گیا۔29 دسمبر کوفرنینڈا سلوا کو انڈین فضائیہ کے ایک طیارے سے ممبئی بھیجا گیا جہاں سے لزبن بھیج دیا گیا۔
ان کے شوہر جنرل سلوا 5 ماہ بعد اپنے ملک جا سکے۔ اس پورے آپریشن میں انڈیا کے 22 فوجی ہلاک ہوئے اور پرتگالی فوج کے 30 فوجی ہلاک ہوئے۔
لزبن پہنچنے پر پرتگالی فوجیوں کو ملٹری پولیس نے عام مجرموں کی طرح اپنی تحویل میں لیا اور بغیر کسی سے ملے نہ معلوم مقام پر بھیج دیا گیا۔
بزدل اور غدار کہہ کر توہین کی گئی گورنر جنرل سلواسمیت کئی افسران کو فوج سے نکال دیا گیا جبکہ 1974 کو پرتگال میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی تو دوبارہ فوج میں انہی بحال کر دیا گیا۔ انڈیا نے گوا میں رہنے والا تمام لوگوں کو انڈیا کی شہریت دی ۔انڈیا نے ان کے سامنے پرتگالی شہریت چھوڑنے کی کوئی شرط نہیں رکھی۔